۳ آبان ۱۴۰۳ |۲۰ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 24, 2024
رہبر انقلاب

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ کی صبح صوبۂ فارس کے 15 ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کانفرنس کی منتظمہ کمیٹی سے ملاقات میں خطے کے واقعات اور مزاحمتی محاذ کی استقامت و مجاہدت کو علاقے کے مستقبل اور تاریخ میں بڑی تبدیلی بتایا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ کی صبح صوبۂ فارس کے 15 ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کانفرنس کی منتظمہ کمیٹی سے ملاقات میں خطے کے واقعات اور مزاحمتی محاذ کی استقامت و مجاہدت کو علاقے کے مستقبل اور تاریخ میں بڑی تبدیلی بتایا اور 50 ہزار سے زیادہ بے قصور انسانوں کے قتل عام کے باوجود مزاحمت کو ختم کرنے میں صیہونی حکومت کی شکست پر زور دیتے ہوئے مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی حکام کی رسوائي کو زیادہ بڑی شکست قرار دیا اور کہا کہ شیطانی محاذ کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ کی صف آرائي میں، فتح مزاحمتی محاذ کی ہے۔

انھوں نے خطے کے موجودہ مسائل اور غزہ، لبنان اور غرب اردن کے واقعات کو تاریخ رقم کرنے والےواقعات سے تعبیر کیا اور کہا کہ اگر شہید سنوار جیسے لوگ نہ ہوتے جو زندگی کے آخری لمحے تک لڑے یا شہید سید حسن نصر اللہ جیسے باعظمت لوگ نہ ہوتے جو جہاد، عقل، شجاعت اور ایثار کو ایک ساتھ میدان جنگ میں لے آئے تو علاقے کا مستقبل کچھ دوسرا ہی ہوتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے واقعات کے موجودہ عمل کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ مغربی تہذیب و تمدن کے لیے ایک بڑی شکست بتایا اور کہا کہ صیہونی سوچ رہے تھے کہ وہ بڑی آسانی سے مزاحمتی گروہوں کو ختم کر دیں گے لیکن آج 50 ہزار سے زیادہ نہتے اور عام انسانوں اور اسی طرح مزاحمت کے کچھ نمایاں رہنماؤں کے قتل اور امریکا کی جانب سے خرچ کیے جانے والے بے تحاشا پیسے اور صیہونی حکومت کی بھرپور مدد و حمایت کے باوجود، جس کی وجہ سے اسے پوری دنیا میں نفرت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ خود امریکی یونیورسٹیوں میں مجرموں کے خلاف ریلیاں نکالی گئيں، مزاحمتی محاذ اور حماس، جہاد اسلامی، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے جوان اسی عزم اور طاقت کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور یہ صیہونی حکومت کے لیے ایک بڑی شکست ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس سے بھی بڑی شکست مغربی تہذیب و تمدن کو ہوئي ہے اور دو ٹن وزنی بموں اور مختلف ہتھیاروں سے دس ہزار سے زائد معصوم اور بے قصور بچوں کا قتل عام ایسے عالم میں ہوا کہ مغربی سیاستدانوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور یہ مغرب کے ان جھوٹے اور انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوے کرنے والے سیاستدانوں کی شدید رسوائي اور مغربی تمدن کی بے اعتباری کا سبب ہے اور اس نے پوری دنیا کو دکھا دیا کہ یہ ان کے لیے سب سے بڑی شکست ہے۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے صیہونی حکومت کی پشت پناہی کرنے والے محاذ کو شیطانی محاذ قرار دیا اور کہا کہ اس شیطانی محاذ کے مقابلے میں، مزاحمتی محاذ ڈٹا ہوا ہے اور اللہ کی مدد سے فتح، مزاحتمی محاذ کی ہی ہے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں اسی طرح صوبۂ فارس کو دین، شجاعت اور فن و ہنر کی آمیزش کا سب سے بڑا مظہر بتایا اور ماضی سے لے کر آج تک اس علاقے کے نمایاں شہیدوں منجملہ شہیدہ معصومہ کرباسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جو حال ہی میں لبنان میں صیہونی حکومت کے مجرمانہ حملے کا ہدف بن کر شہید ہوئيں، کہا کہ صوبۂ فارس کے شہیدوں کی کانفرنس میں شجاعت، فن و ہنر اور دین کی حسین آمیزش کو لازوال بنا دینا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پہلوی دور حکومت میں شیراز اور صوبۂ فارس سے دین کو ختم کرنے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سخت مغالطے میں تھے اس وقت کے وہ لوگ جو سوچ رہے تھے کہ شیراز میں آرٹ فیسٹول جیسے اوچھے اقدامات کے ذریعے اس شہر کو حرم اہلبیت اور دین و ایمان کے مرکز سے بے راہ روی اور بے حیائي کے مقام میں بدل دیں گے۔ البتہ آج بھی اسی مشینری کا کچھ بچا کھچا کچرا ہمارے عزیز ملک میں فن و ہنر کو روحانیت اور شجاعت سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن جو چیز ملک و قوم کی پیشرفت کا سبب ہے وہ شجاعت اور فن و ہنر ہے۔

انھوں نے صوبۂ فارس کے 15 ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کانفرنس کی منتظمہ کمیٹی کو آرٹ اور کلچر سے متعلق پروڈکٹس کے اثرات کا جائزہ لینے کی سفارش کی اور کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو ملک کے پرافتخار ماضی خاص طور پر انقلاب کے بعد کے واقعات وحقائق جیسے تہران میں امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے یا بعثی دشمن کے مقابلے میں آٹھ سالہ جنگ کی وجہ کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جس کے لیے انقلاب کے واقعات کو صحیح اور اچھے طریقے سے پیش کرنا ضروری ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .